فقیہ ملت مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ (بانی جامعہ دارالعلوم کراچی) ایک کہنہ مشق فقیہ تھے، اﷲ تعالیٰ نے فتوے کے حوالے سے آپ کو بلند مقام عطا فرمایا تھا، پہلے دارالعلوم دیوبند (انڈیا) میں صدر مفتی کے اہم منصب پر فائز تھے پھر ۱۹۴۸ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تو یہاں بھی مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لئے بکثرت رجوع کرنے لگے اور حضرت مفتی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ احکام شرعیہ سے انہیں آگاہ فرمانے لگے، اس طرح رفتہ رفتہ آپؒ کی ذات ایک چلتے پھرتے دارالافتاء کی حیثیت اختیار کرگئی، پھر عوام الناس کی سہولت کے لئے برنس روڈ کراچی کی مسجد ’’باب الاسلام‘‘ سے متصل ایک دارالافتاء قائم فرمایا، جہاں آپؒ نے سال سال تک فتوے کا کام کیا۔
جب حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے جامعہ دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی تو اس کے ذریعے صرف طلبہ کی علمی پیاس بجھانے پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دارالافتاء بھی قائم فرمایا تاکہ دور دراز کے مسلمان بھی اپنی علمی ضروریات میں رہمنائی حاصل کرسکیں، چنانچہ دنیا کے اطراف و اکناف سے مسلمان اپنے سوالات بھیجنے لگے اور یہاں سے ان کے علمی و تحقیقی جوابات لکھے جانے لگے، حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے جلیل القدر صاحبزادگان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے زمانے کے اکابر اہل افتاء کے علاوہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے فتوے کی خصوصی تربیت حاصل کی، اور والد ماجدؒ کے آخری سانس تک ان کی زیر نگرانی اس طرح کام کیا کہ کوئی اہم تحریر انہیں دکھائے یا سنائے بغیر شائع نہیں کی، طویل عرصے کی ایسی صحبت اور اکابر کے زیر نگرانی فتوی کی طویل ممارست اور پیچیدہ مسائل میں تحقیق و اعتدال کے خصوصی وصف کی بناء پر عرب و عجم کے علماء اور مفتیان کرام حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں، فقہی اجتماعات میں ان کے مشوروں کو اہمیت دی جاتی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے اہل علم اور دیندار مسلمان ان حضرات کی عربی، اردو تحریرات اور فقہی مقالات سے استفادہ کرتے ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی تحریرات تو اردو، عربی کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہیں۔
بانی جامعہ دارالعلوم کراچی اور ان کے قابل قدر اور ذی وقار جانشینوں کی شبانہ روز انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ جامعہ دارالعلوم کراچی کا یہ دارالافتاء ایک خاص مرجعیت کا حامل ہے، یہاں فتوے کی خدمت میں مشغول مفتیان کرام بڑی محنت اور عرق ریزی سے فتاویٰ تحریر کرتے ہیں، اور ان کی زیر ہدایت اب تک بہت سے فضلاء یہاں سے تخصص فی الفقہ و الافتاء کر کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کی دینی رہنمائی بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں، درحقیقت یہ جامعہ کا بنیادی شعبہ ہے جس کا مقصد دینی مسائل میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرنا اور قرآن و سنت اور اجماع و قیاس کی روشنی میں دقیق فقہی مسائل کی تحقیق کرنا ہے۔
پاکستان اور دیگر ممالک سے ہر شعبہ زندگی کے بارے میں یہاں سوالات آتے ہیں، خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد ٹیلی فون پر اپنے مسائل پوچھتی ہے، بہت سے لوگ تحریری طور پر سوالات کرتے ہیں، بہت سے حضرات و خواتین ڈاک، انٹر نیٹ، ای میل اور فیکس کے ذریعہ اپنے سوالات بھیجتے ہیں، اگر کوئی مسئلہ نہایت اہم اور تحقیق طلب ہو تو ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کے لئے اسے الگ کرلیا جاتا ہے اور سائل کو خط کے ذریعے بتادیا جاتا ہے کہ آپ کا مسئلہ نہایت اہم اور تحقیق طلب ہے اس کو حل کرنے میں وقت لگے گا، اب تک ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کی طرف سے متعدد تحقیقی مقالات و رسائل مرتب ہوچکے ہیں، جو مسائل قدرے غور طلب ہوں وہ دارالافتاء ہی میں متعین مفتی صاحبان کے حولاے کردئے جاتے ہیں، درمیانے درجے کے مسائل درجہ تخصص سال دوم اور سال سوم کے طلبہ کو لکھنے کے لئے دئے جاتے ہیں اور آسان مسائل درجہ تخصص سال اول کے طلبہ حل کرتے ہیں، ان سب فتاویٰ پر بڑے مفتیان کرام کی تصدیق ضروری ہوتی ہے جس کے بعد ہی فتویٰ دارالافتاء سے جاری کیا جاتا ہے، نصف صدی سے زائد عرصے میں یہاں سے تقریباً سات لاکھ سے زائد فتاویٰ جاری کئے جاچکے ہیں۔

"جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی" ایک غیر سرکاری، دینی اور علمی ادارہ ہے۔ جو اپنے نصاب تعلیم، نظم و نسق اور تربیت کے اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔

برصغیر-پاک وہند و بنگلہ دیش-کے مسلمانوں پر علماءحق کا بہت بڑا احسان ہے، جنہوں نے دینی مدارس اور جامعات قائم کرکے ایک طرف دینی علوم – علوم نبوت – کی حفاظت کی تو دوسری طرف ایسے علماء حق پیداکئے جنہوں نے اس امت کی دینی، ایمانی اور اخلاقی تربیت فرمائی، اسی کی برکت ہے کہ آج شعائر اسلام زندہ ہیں، معروف اور منکر کا فرق واضح ہے اور دلوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔

علماء حق کی ان برگزیدہ ہستیوں میں ہمارے شیخ محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تعالی تھے، جنہیں اکابر امت کا تلمذ اور رفاقت نصیب ہوئی اور اپنی پوری زندگی علوم نبوت کی تعلیم و تدریس میں گزاری- فياله من سعادة –

اس طویل تجربہ سے آپ کے دل میں ایک داعیہ پیدا ہوا کہ اگر اللہ تعالی توفیق دے تو ایک ایسا علمی ادارہ قائم کروں جو منفرد خصوصیات  کا حامل ہو اور جس سے باصلاحیت علماء ربانیین پیدا ہوں جو امت کی صحیح راہنمائی کرسکیں، اس  داعیہ کو حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی نے اپنے اس مقدمہ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے، جو آپ نے "دليل الجامعة" کے لیے لکھا تھا۔

حضرت شیخ رحمہ اللہ کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت بخشی اور ان کی زندگی میں اس جامعہ کی حیثیت ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ہوگئی، جہاں سے پاکستان اور بیرون پاکستان کے ہزاروں تشنگان علم فیض یاب ہوکر اپنے اپنے ملکوں  اور علاقوں میں کام کرنے لگے۔

حضرت شیخ رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد ان کے جانشینوں کے دور میں اللہ تعالیٰ نے جامعہ کو مزید ترقی عطا فرمائی اور اس کی کراچی میں بہت سی شاخیں قائم ہوگئیں، جن میں مرکز سمیت اس وقت بارہ ہزار سے زائد طلبہ اور طالبات علم حاصل کررہے ہیں۔

المفتی آن لائن ملک کے معروف دینی و تعلیمی ادارہ جامعۃ الرشید کے شعبہ دارالافتاء کی نمائندہ ویب سائٹ ہے۔ دارالافتاء کہنے کو تو جامعۃ الرشید کا ایک ذیلی شعبہ ہے، لیکن درحقیقت یہ شعبہ جامعہ کی اساس ہے، اس لیے کہ جامعۃ الرشیددرحقیقت “دارالافتاء والارشاد”  ہی سے پھوٹا ہوا ایک چشمہ ہے

زیر نظر ’’اشرف الفتاویٰ‘‘ ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جن کے سوالات معہد اُم القریٰ جامعہ اشرفیہ کے زیر انتظام مفتی آن لائن کے شعبہ میں بذریعہ ای میل (E-mail)موصول ہوئے۔

اہل نظر و فکر اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ مادی ترقی کے دور میں جہاں دین مخالف خیالات کو ایک منظم انداز سے، میڈیا کے ذریعے عوام میں منتقل کیا جا رہا ہے اور ذرائع نشر و اشاعت سے حیا سوز اور قابل اعتراض مواد کو پھیلانے کی تگ و دو میں مسابقت جاری ہے، وہاں علماء کرام لوگوں کو ہدایت کی طرف لانے اور ان کی دینی تعمیر و ترقی کے لیے جدید ذرائع مواصلات اور انٹرنیٹ کی سہولت کو حسب استطاعت دین کے فروغ کے لیے استعمال کرنے سے غافل نہیں رہے۔

معہد اُم القریٰ جامعہ اشرفیہ لاہور کا شعبہ مفتی آن لائن (mutfi on line)اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جہاں ملک اور بیرون ملک سے دین کی پیاس رکھنے والے احباب کرام کی جانب سے مختلف دینی امور پر سوالات پوچھے جاتے رہے اور مفتیانِ کرام انتہائی تحقیق و جستجو کے بعد ان مسائل کا شرعی حل بتا کر لوگوں کی دینی راہنمائی فرماتے رہے۔ کتاب ہذامیں بذریعہ ای میل (E-mail)موصول ہونے والے سوالوں کے جوابات میں سے بعض فتاویٰ یکجا کیے گئے ہیں اور ان مسائل کی اشاعت کا ترجیحاً اہتمام کیا گیا جو عملی نوعیت کے جدید مسائل ہوں اور موجودہ دور میں جن کی شرعی تطبیق کی طرف لوگوں کی راہنمائی کی زیادہ ضرورت ہو ۔

اس مجموعہ میں ذکر کیے گئے فتاویٰ کی کل تعداد تقریباً ساڑھے پانچ سو کے قریب ہے او ریہ بذریعہ ای میل دنیا بھر سے بھیجے جانے والے کل فتاویٰ کی تعداد کا تقریباً آٹھواں حصہ ہے۔ یہ فتاویٰ وہ تھے جو ای میل کے ذریعہ تحریراً بھیجے گئے۔ جو فتاویٰ بآواز اور براہِ راست مکالمہ (Chatting) کے ذریعے بھیجے گئے ان کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

زیر نظر مجموعۂ ’’اشرف الفتاوٰی‘‘ میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ قابل تخریج فتاویٰ کے حوالوں کی تخریج کی جائے اور مستند کتب اور مأخذ سے حوالے تلاش کرکے فتاویٰ کو مدلل انداز سے یکجا کیا جائے تاکہ قاری اگر اصل کتب کی مراجعت سے مزید توثیق کرنا چاہے تو اسے دقت پیش نہ آئے۔

مذکورہ کتاب میں انسانی بساط کے مطابق اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ فتاویٰ کی تحریر میں اغلاط سے بچا جائے تاہم انسان کی فطرت میں خطا کا امکان موجود ہے نیز بعض ایسے مسائل بھی ہو سکتے ہیں جن کے جواب میں معاصر علماء کا اختلافِ رائے ہو سکتا ہے، علمی نوعیت کا اختلافِ رائے وسعت نظر کی راہیں کھولتا ہے اور بعض مسائل کا جواب عرف کے بدلنے سے بدل جاتا ہے، ایسے مسائل اگر محسوس ہوں جن میں بظاہر تضاد نظر آئے یا اس بارے میں علمائِ کرام کی رائے مختلف ہو تو انہیں مندرجہ بالا توضیح پر محمول کیا جائے۔

مذکورہ کتاب کو فقہی کتب کی ترتیب کے مطابق ابواب اور عناوین لگا کر مرتب کیا گیا ہے اور شروع میں جامع فہرست دی گئی ہے اور ہر فتویٰ کی ابتدا میں مختصر عنوان لگا کر مطلوبہ فتویٰ کی تلاش کو آسان بنا دیا گیا ہے۔

خداوند کریم جزائے خیر عطا فرمائے اُن تمام حضرات کو جنہوںنے اس کارِ خیر پر تعاون فرمایا خصوصاًحضرت مولانا سیف الرحمن صاحب شیخ الحدیث مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ ۔اور مخدوم و مکرم جناب ڈاکٹر شیر علی صاحب مستشفیٰ اُم القریٰ مکہ مکرمہ۔ اور محترم جناب سردار یاسین ملک صاحب ہلٹن فارما کراچی و محترم جناب ایس ایم رفیع صاحب پرنسپل معہد اُم القریٰ اور وائس پرنسپل حافظ زبیر حسن صاحب اور ان کی پوری ٹیم جو اس ادارہ کی ترقی کے لئے محنت اور کوشش کر رہی ہے۔ دلی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو دارین کی سعادتیں نصیب فرمائے۔ آمین

DARULIFTA AL-IKHLAS provides solutions to Shariah based queries in light of Quran and Sunnah, in the form of Fatwa. The key objective of this initiative is to serve Muslims across the globe by facilitating use of modern communication technologies. Darulifta Al-ikhlas functions under the supervision of renowned religious scholars / Mufti’s (details are mentioned below).

It is being headed by it's founder, Mufti Muhammad Aqeel Munir sahib (damat barakatuhu). Since long, Mufti sahib have had an urge, that it is becoming increasingly difficult for common Muslims to approach religious scholars (Mufti’s), partly due to academic commitments of religious scholars (Mufti’s) and partly due to people’s own economic engagements impeding them from visiting religious scholars (Mufti’s).

Secondly, in today’s era, everyone wants an instant solution to his problem over the internet. In other words, they need a one touch solution to their each problem or queries.

Keeping this perspective in view, Mufti Aqeel DB made numerous WhatsApp groups, which received overwhelming response from the public, but since it had a limitation of members, therefore, a need was felt to develop a web-site, through which Muslims from all over the world (in English / Urdu) can receive timely solution to their queries in the light of Quran and Sunnah by religious scholars (Mufti’s). With this desire, he met his mentor Shaikh-ul-Islam, Hazrat Mufti Muhammad Taqi Usmani Sahab (مدظلہ العالی) for advice and presented him his work, who highly appreciated the effort, gave valuable advice and further encouraged "DARULIFTA AL-IKHLAS" by recording an audio message based on words of prayers (دعائیہ کلمات). Therefore, after support and prayers from the mentor, DARULIFTA AL-IKHLAS was set up.

Darulifta Al-ikhlas also welcomes people to meet religious scholars (Mufti’s) in person at our office or can send their queries on our web-site to obtain solution in English or Urdu in the light of Quran and Sunnah. The office of Darulifta Al-ikhlas located in Gulshan e Iqbal town, Karachi, Pakistan.

May ALLAH bless and accept this DARUL IFTA, utmost sincerity to those working for it, and spread it’s benefit to people all around the world. AAMEEN.

Darul Ifta Australia (Australian Institute of Islamic Jurisprudence) Inc. is a non-profit organisation that is based in Melbourne, Australia. 

The organisation was officially opened on the 3rd of September, 2011 under the instruction and supervision of Mufti Ebrahim Desai sahib (daamat barakaatuhum) of South Africa (of www.askimam.org and www.daruliftaa.net). The opening took place at the residence of Mufti Faizal Riza, the president of the organisation and student of Mufti Ebrahim Desai sahib. Over a dozen Ulama and Muftis attended the gathering for the opening.

Darul-Ifta is a very important department of Darul Uloom Waqf Deoband which deals with aspects relating to a Muslim’s life. So this is the department from which people all across the world question in their religious and social matters.
Darul Uloom Waqf Deoband appointed a group of Mufties for this department. They are to answer the question as soon as possible. Darul-Ifta has always been center of attraction and held great respect and trust in public and court circles.

The Recent Muftis of Darul-Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

Name
Designation

Maulana Mufti Muhammad Ihsaan Qasmi Nadwi

Mufti

Maulana Mufti Muhammad Arif Qasmi

Mufti

Maulana Mufti Amanatullah Qasmi

Mufti

Maulana Mufti Muhammad Imran Qasmi

Naib Mufti

Maulana Mufti Muhammad Asad Jalal Qasmi

Naib Mufti

Maulana Mufti Hasnain Arshad Qasmi

Naib Mufti

مدارس دینیہ کے عوام سے روابط کے معاملے میں دار الافتاء والقضاء کو کلیدی حیثیت حاصل ہے دار الافتاء والقضاء کے احباب کی شب و روز محنت کے نتیجے میں جلد ہی دار الافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ نے دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کیا اور خوش قسمتی سے ملک پاکستان کے بعض حصوں میں شرعی عدالتیں قائم ہیں ان سے استفادہ کرتے ہوئے جامعہ بنوریہ کےمفتیان کرام نے ملک کے نامور قضاۃ اور شرعی بینچ کے ججز سے باقاعدہ پنچایت ، ثالث ، حکم اور قضاء کی تربیت حاصل کی اس کے بعد دار الافتاء کو دار الافتاء و القضاء کی حیثیت دے دی گئی دار الافتاء کانظام دار الافتاء واالقضاء کی ابتداءایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل مختصر متاع کے ساتھ ہوئی اور تیزی سے ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے ایک بڑے انتظامی سیٹ اپ میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔ اسوقت دار الافتاءپانچ بڑے انتظامی یونٹ میں منقسم ہے

ایسے ماحول میں ندوۃالعلماء کا قیام عمل میں آیا، جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی، اور عیسائی مشنریاں آزادانہ طور پر مسیحیت کی دعوت دے رہی تھیں، اور پورے ملک میں گھوم پھر کر اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر کے غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی مہم پورے زور وشور کے ساتھ جاری تھی، ایک طرف یہ ہورہا تھا، دوسری طرف ہمارے علماء کا فروعی مسائل میں اختلاف کا یہ عالم تھا کہ کبھی تو مقدمہ کی نوبت آجاتی اور علماء غیرمسلم ججوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث ان ججوں کے نیچے ڈھیر ہوتیں۔

انگریزوں کے لائے ہوئے غیر اسلامی نظام تعلیم کے اثر سے مسلمان قدیم و جدید کے دو متوازی طبقوں میں تقسیم ہو گئے تھے، ایک طرف علمائے دین تھے جو عربی مدارس سے قدیم طرز پر پڑھ کر نکل رہے تھے، دوسری طرف مغربی تعلیم یافتہ حضرات جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروردہ تھے، ان دونوں کے درمیان اجنبیت اور بے گانگی کی خلیج تھی جو دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی، علماء مسلم معاشرہ کی پاسبانی ونگرانی اور مغربی علوم کے حملوں اور اس کے تشکیکی اثرات سے مسلمان نوجوانوں کی حفاظت میں سخت دشواری محسوس کر رہے تھے اور تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کے غاشیہ برداروں اور فکری و تہذیبی شکست کے نقیبوں کے اثر کا شکار ہوتا جا رہا تھا، غرض کہ قوم کا ایک بڑا حصہ ان دونوں طبقوں کے درمیان ہچکولے کھا رہا تھا، جس میں سے ایک طبقہ قدیم طرز تعلیم اور مسلک سے کسی فروعی اختلاف کو بھی ایک قسم کی تخریب اور ضلال سمجھتا تھا، دوسرا طبقہ مغرب سے آنے والی ہر چیز کو عظمت وتقدس کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اور اس کو ہر عیب و نقص سے پاک سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اہل مغرب کے افکار اور فکری رجحانات بھی اس کو عظمت اور علمیت کا پیکر نظر آتے تھے اور ان کو وہ ذہن انسانی کی پرواز کی آخری منزل تصور کرتا تھا، ان دونوں طبقوں کے درمیان جو فکری تضاد تھا اور جس طرح وہ دو انتہائی سروں پر تھی ، اس کی تصویر لسان العصر اکبرالٰہ آبادی نے اس شعر میں کھینچی ہے

linkedin facebook pinterest youtube rss twitter instagram facebook-blank rss-blank linkedin-blank pinterest youtube twitter instagram