ایسے ماحول میں ندوۃالعلماء کا قیام عمل میں آیا، جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی، اور عیسائی مشنریاں آزادانہ طور پر مسیحیت کی دعوت دے رہی تھیں، اور پورے ملک میں گھوم پھر کر اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر کے غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی مہم پورے زور وشور کے ساتھ جاری تھی، ایک طرف یہ ہورہا تھا، دوسری طرف ہمارے علماء کا فروعی مسائل میں اختلاف کا یہ عالم تھا کہ کبھی تو مقدمہ کی نوبت آجاتی اور علماء غیرمسلم ججوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث ان ججوں کے نیچے ڈھیر ہوتیں۔
انگریزوں کے لائے ہوئے غیر اسلامی نظام تعلیم کے اثر سے مسلمان قدیم و جدید کے دو متوازی طبقوں میں تقسیم ہو گئے تھے، ایک طرف علمائے دین تھے جو عربی مدارس سے قدیم طرز پر پڑھ کر نکل رہے تھے، دوسری طرف مغربی تعلیم یافتہ حضرات جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروردہ تھے، ان دونوں کے درمیان اجنبیت اور بے گانگی کی خلیج تھی جو دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی، علماء مسلم معاشرہ کی پاسبانی ونگرانی اور مغربی علوم کے حملوں اور اس کے تشکیکی اثرات سے مسلمان نوجوانوں کی حفاظت میں سخت دشواری محسوس کر رہے تھے اور تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کے غاشیہ برداروں اور فکری و تہذیبی شکست کے نقیبوں کے اثر کا شکار ہوتا جا رہا تھا، غرض کہ قوم کا ایک بڑا حصہ ان دونوں طبقوں کے درمیان ہچکولے کھا رہا تھا، جس میں سے ایک طبقہ قدیم طرز تعلیم اور مسلک سے کسی فروعی اختلاف کو بھی ایک قسم کی تخریب اور ضلال سمجھتا تھا، دوسرا طبقہ مغرب سے آنے والی ہر چیز کو عظمت وتقدس کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اور اس کو ہر عیب و نقص سے پاک سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اہل مغرب کے افکار اور فکری رجحانات بھی اس کو عظمت اور علمیت کا پیکر نظر آتے تھے اور ان کو وہ ذہن انسانی کی پرواز کی آخری منزل تصور کرتا تھا، ان دونوں طبقوں کے درمیان جو فکری تضاد تھا اور جس طرح وہ دو انتہائی سروں پر تھی ، اس کی تصویر لسان العصر اکبرالٰہ آبادی نے اس شعر میں کھینچی ہے